تھام لیں اُن ہاتھوں کو، ڈور سانسوں کی ٹوٹنے سے پہلے!
بے بسی، بے کسی اور بیچارگی سے منسوب کلام !
(کاشف شمیم صدیقی کے قلم سے )
***
ہاتھوں کی کپکپاہٹ
ْقدموں کی لڑ کھڑاہٹ،
گھٹتی سانسیں ،، بے پناہ گھبراہٹ
ڈگمگا گیا ہے وجود ہی سارا
ہو چکی ہے غائب ،
تھی جو چہرے پہ مسکراہٹ
.
.
عجب قیامت ٹوٹی ہے
اُن محنت کش، مزدوروں پر
نہ آٹا، شکر۔۔۔ نہ دال ، مٹر
ہیں بھوک سے کئی شکم خالی
تھے جو کل تک برسرِروزگار،
وہ آج بن گئے ہیں سوالی
.
.
معصوم چہرے بچوں کے
ہیں نگاہوں کے سامنے،
مادر ، پدر کی بے بسی
ہے نوحہ کناں ہواﺅں میں،
لب خاموش ہیں، کوئی مدد مانگنے کو
مگر دلوں کی افسردگی ،
بھانپ لی ہے فضاﺅں نے
تبھی تو بے رنگ ہیں آج سارے نظارے
زوروں پر حدّتِ آفتاب
چاند کی مدھم روشنی،
بے نور ہیں ستارے!
.
.
بوجھ ِ زیست نہ سہار سکیں گے
بہت دنوں تک یہ شکم بھوکے
پھر ٹوٹے کی ڈور سانسوں کی ایسے ،
جھڑ جاتے ہیں شجر سے جیسے
خزاں میں پتّے سوُکھے!
.
.
اے خدا ، سُن لے دعا
ہم امّتی ہیں تیرے حبیب ﷺ کے ،
ہے جو داتا دو جہاں کا
ہو نظرِ کرم بے کسوں ، مجبوروں پر
دیکھ اب تجھے واسطہ ہے۔ ۔ ۔،
غریبِ نینوا کا!
.
***
شاعرِامن
کاشف شمیم صدیقی
Comments are closed on this story.